Pages

Taqleed kya hai Lazim Wajib Zaroori Jaez Shirk Taqleed Shakshi means


 آج کل  کچھ مسلمان   دوسرے مسلمانوں سے ایک سوال پوچھتے ہیں  ۔

آپ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر چلتے ہیں یا امام ابو حنیفہؒ(یا امام شافعی ؒ ،/امام مالک ؒ /امام احمؒد /)
کے دین پر
 فوراجواب ملتا ہے:  یقیناً حضرت محمد ؐ کے دین پر۔
اس پر ایک دوسرا سوال پوچھا جاتا ہے : پھر  آپ اپنے کو حنفی کیوں کہتے  ہیں؟
ایک عام مسلمان جو علم نہیں رکھتا اس سوال سے پریشان ہو جاتا ہے ۔اسکا فائدہ اٹھا کر اس کے دماغ میں شکوک و شبہات پیدا کیئے جاتے ہیں ۔
اوپر دیئے گئے سوالوں کا استعمال کرکے ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کے تحت یہ غلط تصور عوام میں پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے  کہ اگر آپ  حنفی ہیں تو آپ امام ابو حنیفہ کے دین پر عمل کر رہے ہیں  ،نہ کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر۔ یہ ایک خطرناک غلطی ہے ۔امام ابو حنیفہ ،امام شافعی ، امام مالک ، امام احمد ؒ نے اپنا کوئی دین ایجاد نہیں کیا  بلکہ انہوں نے مضبوطی کے ساتھ ایک اور صرف ایک دین –اسلام پر عمل کیا جسے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے تھے ،اس لیئے ان کے ماننے والے سب ایک ہی دین پر عمل کر رہے ہیں اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہے ۔

فقہ حنفی (شافعی، مالکی، حنبلی)  پر عمل کرنا بہتر ہے یا قرآن و حدیث پر ؟؟

:  اس سوال کے ذریعہ ایک عام مسلمان کو دعوت فکر پهر دعوت گمراہی دی جاتی ہے، حالانکہ درحقیقت یہ وسوسہ باطل وفاسد ہے ، اس لیئے کہ جس طرح حدیث قرآن کی شرح ہے اسی طرح فقہ حدیث کی شرح ہے ، اب اصل سوال یہ بنتا ہے کہ قرآن و حدیث پر عمل علماء وفقہاء وماہرین کی تشریحات کے مطابق کریں یا اپنے نفس کی تشریح اور  فرقہ  حضراتء کی تشریح کے مطابق ؟؟

اہل سنت و جماعت تو مستند علماء وفقہاء ومجتهدین کی تشریحات وتصریحات کے مطابق قرآن وحدیث پر عمل کرتے ہیں اور اسی کا نام علم فقہ ہے ، جب کہ نام نہاد فرقہ میں شامل ناسمجھ لوگ خود ساختہ  شیوخ کے خیالات وآراء پرعمل کرتے ہیں ، اب ایک عقل مند آدمی خود فیصلہ کرلے کہ اسے کن کی باتوں پر عمل کرنا ہے اور کس کا عمل زیاده صحیح ہے ؟....
اپنے نبی کے قریب والے زمانے کے علماء و فقہاء و تابعین کے اقوال پر عمل کرنا ہے یا اس نئے زمانہ کے لوگوں کے اقوال پر ؟




ایک امام کی تقلید کیوں کی جائے ؟
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان چار امام میں سے کسی ایک کی تقلید کیوں کی جائے  ۔اس سوال کا جواب اصل میں ایک سوال پوچھ کر دیا جانا چاہیئے ،
"کیا آپ دین کے تمام قانون اور مسائل کو جانتے ہیں؟"
"کیا آپ براہِ راست قرآن اور حدیث سے وضو، نماز،زکوٰۃ وغیرہ وغیرہ کے تمام مسائل کے استنباط کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟"
"کیا آپ جانتے ہیں کہ کس حدیث میں اپنے پہلے کی کس حدیث کو کلعدم ۔۔۔۔۔۔۔۔کر دیا ہے؟"
"کیا آ پ کے اندر ایسی دو حدیثوں کی مطابقت کی صلاحیت ہے جو سطحی طور پر دیکھنے سے ایک  دوسرے کے مخالف معلوم ہوتےہیں؟"
 کیا آپ جانتے ہیں کہ قرآن کی کون سی آیت احکام کے اعتبار سے  عمومی ہے ،اور کون سی آیت کسی دوسرے آیت کی تشریح ہے ،؟"
اگر آپ کو ان  موضوعات/امور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا علم نہیں ہے تو یقینی طور پر آپ قرآن حدیث سے مسائل کے استنباط کی صلاحیت نہیں رکھتے۔اس صورتِ حال میں آپ پر قرآن کا یہ حکم نافذ ہوتا ہے
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (النحل: 43
پس جیسا کہ ہمیں مطلوبہ امورجنکا  علم قرآں حدیث  سے مسائل کے استنباط کے لیئے ضروری ہے کا وسیع علم نہیں تو ہم تو ہم نے یہ پسند کیا ہے کہ کسی ایسے کی تقلید کی جائے  جسے ان تمام امور کا وسیع علم اور عمیق تجربہ اور اس نے اس شعبے میں مہارت حاصل کی ہے اس طرح کے ایک فرد کا نام اما ابو حنیفہ ہے ۔
امام ابو حنیفہ ؒ ایک تابعی ہے انہوں نے لگ بھک چار ہزار استاد سے حدیث کا علم حاصل کیا ہے ،انکا تقویٰ ایسا تھا کہ انہوں نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی (تاریخ البغداد )
انکے علم ،تقویٰ،ذہا نت  کی انکے تمام معاصرین نے  تعریف کی۔اور ایک مسلمان  ان  پر بجا طو ر پر  مطمئن ہو کر اعتماد کر سکتا  ہے کے وہ قران و حدیث سے استنبا ط کی صلا حیت رکھتے ہیں ۔(   اور یہی بات  امام شافعی ؒ ،/امام مالک ؒ /امام احمؒد کے لییے بھی پروثوق ہوکر کہی جا سکتی ہے )
دوسری وجہ جو  کسی سلف الصالحین امام کو پر اعتماد کی ہے وہ قرآن کا یہ سبق ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے لیئے دو بنیادی شرطیں ہیں –علم اور اس علم پر اخلاص کے ساتھ عمل اس معیار پر چاروں امام    بلندی کے منتہا پر پہنچے ہوئے تھے ۔
امام ابو حنیفہ کو ان کے معاصر علما ء نے اپنے وقت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا  مانتے تھے (حاشیہ تحدیب التحدیب جلد 1 صفحہ 451)
مکی بن ابراھیم جو امام بخاری ؒکے مشہور اساتذذہ میں سے ہیں  وہ امام ابو حنیفہ ؒ کے شاگرد تھے  ۔امام ابو حنیفہ نے    40000احادیث سے تخریج کر کر کتاب الاٰثار  تخریج کی۔
لہٰذاجو لوگ بھی ایسے سلف الصالحین کی تقلید کرتے ہیں وہ یقینی طور پر اور سو فیصد اللہ کے حکم اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی اتباع کر رہے ہیں ۔
ائمہ کا اختلاف
اس جگہ پہنچ کر ایک سوال پوچھا جا سکتا ہے


"اگر سارے اماموں نے قرآن اور حدیث سے مسائل کو نکالا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے  کہ انکی رائے کچھ مسائل میں آپس میں مختلف ہے؟"
اس کو سمجھنے کے لیئے ہمیں تاریخ میں رسو ل اللہ صحابہ کے زمانے میں جانا ہوگا ۔
ایک بار رسول اللہ ﷺ  ایک غزوہ سے   واپس ہوتے ہی فوراً صحابہ کو حکم دیا کہ بنو قریضہ کی طرف کوچ کرنا ہے ۔
بنو قریضہ  مدینے کے باہر یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا ۔اس کوچ کا مقصد ان کا محاصرہ کرنا تھا کیوں کہ انہوں نے مسلمانوں سے کیئے ہوئے اپنے معاہدے کو توڑ دیا تھا ۔صحابہ کو اس ہنگامی صورتِ حال کو باور کرانے کے لیئے  حضور ﷺ نے فرمایا   " تم میں سے کوئی عصر کی نماز نہ پڑھے   بغیر بنو قریضہ پہنچے ہوئے ۔"
ابھی صحابہ راستے میں ہی تھے کہ عصر کا وقت آگیا کچھ صحابہ کی یہ رائے ہوئی کہ انہیں عصر کی نماز پڑھ لینی چاہیئے    کیوں کہ ان کا ماننا تھا کی حضور پاک ﷺ کا حکم  یہ باور کرانے کے لیئے تھا کہ بنو قریضہ بہت تیزی کے ساتھ پہنچنا ہےاسکا یہ مقصدنہیں تھا کہ عصر کی نماز راستے میں نہیں پڑھی جا سکتی ہے  اس لیئے  کچھ صحابہ نے عصر کی نماز پڑھ لی ۔
کچھ دوسرے صحابہ نے حضور پاک ﷺ کے حکم کو اس کے لفظی معنوں میں لیا  اور عصر کی نماز بعد میں بنو قریضہ پہنچ کر پڑھی ۔بعد میں جب رسول اللہ ﷺ کو  یہ بات معلوم ہوئی  تو انہوں نے دونوں میں سے  کسی کو غلط نہیں کہا ۔(صحیح بخاری)
رسول اللہ ﷺ کو  یہ بات معلوم ہوئی  تو انہوں نے دونوں میں سے  کسی کو غلط نہیں کہا ۔(صحیح بخاری)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے  کہ رسول اللہ ﷺکے  کسی حکم کی تشریح میں اختلا ف ہو سکتا ہے ۔لیکن یہ اجتہادی اور تشریحی اختلاف تبھی قابل قبول ہوگا جب وہ کسی ایسے عالم کا ہو جسے قرآن و حدیث اور اس  سے مسائل کے اسنباط کے سلسلے کا وسیع علم ہو  ۔

کئی مرتبہ یہ اختلاف ا س وجہ سے ہوتا ہے کہ کسی ایک عمل کی تفصیل میں ایک سے زیادہ حدیث موجو د ہوتی ہے ۔
 اب ایک امام اصولوں کی بنیا د پر کسی ایک حدیث کو ترجیح دیتے ہیں ،جب کہ دوسرے امام کسی دوسری حدیث کو ۔
یہی در اصل فقہا کے درمیان فروعی مسائل کی تشریح میں اختلاف کی وجہ ہوتی ہے ۔لیکن جیسا کہ اوپر کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے کسی کو غلط نہیں فرمایا ۔ اس لیئے وہ امام جو مجتہد کے درجے پر ہیں ان کے بیچ کے اختلاف میں کسی رائے کو غلط نہیں قرار دیا جا سکتا ہے ۔
ایک دوسری حدیث صورتِ حال کو اور واضح کرتی ہے  ۔صحیح بخاری میں ہےکہ ایک حاکم اپنی پوری صلاحیت لگا کر کسی نتیجے پر پہنچتا ہے اوروہ نتیجہ صحیح ہوتا ہے تو دو ہرا اجر ملتا ہے ۔اور اگر اپنی پوری صلاحیت لگاکر غلط نتیجہ پر پہنچتا ہے تو بھی اسے ایک اجر ملتا ہے ۔(بخاری  جلد 2پیج نمبر1092        
ابن المنظرؒ  اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ایک حاکم تبھی اجر کا مستحق ہوگا جب اس کا علم گہرا ہو اور وہ اپنی پوری صلاحیت لگا کر نتیجہ پر پہنچا ہو ۔چاروں امام علم،تقویٰ  اور دوسرے تمام بنیادوں پر  بلا شبہ اجتہاد کی صلاحیت رکھتے تھے ۔
اس لیئے وہ اس حدیث کے دائرے میں آئیں گے ۔

صرف ایک امام کی تقلید کیوں؟
دوسرا سوال جو یہاں کھڑا ہوتا ہے  وہ یہ ہیکہ ۔
"کسی ایک امام کی تقلید کیوں ضروری ہے ؟
ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے کہ ایک مسئلے میں ایک امام کی تشریح پر عمل کریں اور دوسرے مسئلے میں کسی دوسرے امام کی ؟                                      
اس کا واضح جواب یہ ہے  کہ جناب آپ کس بنیا پر کسی مسئلے میں ایک امام کی رائے کو ترجیح دینگے ۔جبکہ آپ کو مسائل کے استنباط کے اصول کا علم نہیں ہے اور آپ ایک امام کی رائے کو کس بنیا د پر قبول کریں گے ۔
یقینا اسکی بنیادآپ کا  ذاتی انتخاب ہوگا  یا دوسرے لفظوں میں جس میں آپ کو آ سانی نظر آئےگی ۔
                        یہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ آپ اپنے نفس کی تقلید اور اتباع کر رہے ہیں جسکی اللہ تعالی ٰ نے قرآن کریم میں سخت مذمت کی ہے ۔اور اپنے نفس کی اتباع آدمی کو کفر تک پہنچا دیتی ہے ۔اسی لیئے  بعد کے زمانے  کے     اہم فقہاء جیسے شاہ ولی اللہ ؒ  نے عام مسلمانوں کے لیئے کسی ایک امام کی تقلید کو ضروری قرار دیا ہے ۔

احادیث کی معتبریت اور مستند ہونا
یہاں ایک اور امر کی وضاحت ضروری ہے  وہ احادیث کی معتبریت کے بارے میں ہے ۔کچھ مسلمانوں نے یہ غلط فہمی پھیلائی گئی ہے کہ کوئی حدیث تبھی معتبر ہے جب کہ وہ بخاری شریف اور مسلم شریف میں ہو۔یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے ۔کسی حدیث کا صحیح اور مستند ہونا اس کے راویوں کے سلسلے سے ہوتا ہے چہ جائکہ وہ حدیث صحاح ستہ (حدیث کی 6 معتبر کتابیں ) میں ہو یا کسی دوسری حدیث کی کتاب میں ۔

امام مسلم ؒ نے اپنی کتاب صحیح مسلم کی مقدمہ میں لکھا ہے کہ انہوں نے ہر صحیح حدیث کو درج نہیں کیا ہے ۔بلکہ امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ کے مطابق جو صحیح احادیث  بخاری ومسلم میں درج نہیں ہے  انکی تعداد زیادہ ہے ان احادیث سے جو 
بخاری مسلم میں درج ہیں ۔ چاروں  مشہور فقہ قرآن و حدیث سے مستنبط ہیں ۔

ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺍﻧﻮﺭ ﺷﺎﮦ ﮐﺎﺷﻤﯿﺮﯼ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻧﻤﺎﺯِ ﻓﺠﺮ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮﮬﻮﺍ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﺮ ﭘﮑﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮩﺖ ﻏﻤﺰﺩﮦ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ .. ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ..
"
ﻣﺰﺍﺝ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﮯ ..؟ "
ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ .. "ﮨﺎﮞ ! ﭨﮭﯿﮏ ﮨﯽ ﮨﮯ ﻣﯿﺎﮞ .. ﻣﺰﺍﺝ ﮐﯿﺎ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﻮ ..
ﻋﻤﺮ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮ ﺩﯼ
"!..
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ .. "ﺣﻀﺮﺕ ! ﺁﭖ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﻋﻠﻢ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺍﺷﺎﻋﺖ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﯼ ﮨﮯ .. ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﺴﺘﻔﯿﺪ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺪﻣﺖِ ﺩﯾﮟ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ .. ﺁﭖ
ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺍﮔﺮ ﺿﺎﺋﻊ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﺲ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﯽ ..؟
ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ .. " ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺻﺤﯿﺢ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻤﺮ ﺿﺎﺋﻊ
ﮐﺮ ﺩﯼ "..
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ .. " ﺣﻀﺮﺕ ! ﺍﺻﻞ ﺑﺎﺕ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ..؟ "
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ .. " ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﮐﺎ ' ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﻘﺮﯾﺮﻭﮞ ﮐﺎ ' ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺳﺎﺭﯼ
ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﻼﺻﮧ ﯾﮧ ﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺴﻠﮑﻮﮞ ﭘﺮ ﺣﻨﻔﯽ ﻣﺴﻠﮏ ﮐﯽ
ﺗﺮﺟﯿﺢ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ.. ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮐﮯ
ﺩﻻﺋﻞ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﯾﮟ .. ﯾﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻣﺤﻮﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﺎ ' ﺗﻘﺮﯾﺮﻭﮞ ﮐﺎ
ﺍﻭﺭ ﻋﻠﻤﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ.. ﺍﺏ ﻏﻮﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﺲ ﭼﯿﺰ ﻣﯿﮟ ﻋﻤﺮ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮ
ﺩﯼ "..
ﭘﮭﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ .. " ﺍﺭﮮ ﻣﯿﺎﮞ ! ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﻣﺴﻠﮏ ﺻﺤﯿﺢ ﺗﮭﺎ
ﺍﻭﺭ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺧﻄﺎ ﭘﺮ ' ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﺍﺯ ﮐﮩﯿﮟ ﺣﺸﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﮯ ﮔﺎ
ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﮑﺮ
ﻧﮑﯿﺮ ﭘﻮﭼﮭﯿﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﺣﻖ ﺗﮭﺎ ﯾﺎ ﺗﺮﮎِ ﺭﻓﻊ ﯾﺪﯾﻦ ﺣﻖ ﺗﮭﺎ ..؟
ﺁﻣﯿﻦ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﺣﻖ ﺗﮭﺎ ﯾﺎ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﺣﻖ ﺗﮭﺎ ..؟ ﺑﺮﺯﺥ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ
ﺍﺳﮑﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺳﻮﺍﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ
ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ ..
ﺭﻭﺯِ ﻣﺤﺸﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽ ﮐﻮ ﺭﺳﻮﺍ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﻣﺎﻡ
ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﮧ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ ﮐﻮ .. ﺍﻭﺭ ﻧﮧ
ﻣﯿﺪﺍﻥِ ﺣﺸﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﯾﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﯿﻔﮧ
ﻧﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﯾﺎ ﺍﻣﺎﻡ ﺷﺎﻓﻌﯽ ﻧﮯ ﻏﻠﻂ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ.. ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ ..
ﺗﻮ ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﻧﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮑﮭﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺑﺮﺯﺥ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﻣﺤﺸﺮ
ﻣﯿﮟ ' ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﮍ ﮐﺮ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻤﺮ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ
"
ﺻﺤﯿﺢ ﺍﺳﻼﻡ " ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻣﺠﻤﻊ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ
ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺟﻮ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻣﺘﻔﻘﮧ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ
ﺳﺒﮭﯽ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺍﮨﻢ ﺗﮭﯿﮟ ' ﺟﻦ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ
ﺗﮭﮯ ' ﺟﻦ ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﮐﻮ ﻋﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ' ﻭﮦ
ﻣﻨﮑﺮﺍﺕ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻣﭩﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮨﻢ ﭘﺮ ﻓﺮﺽ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ' ﺁﺝ ﺍﺱ
ﮐﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ..
ﯾﮧ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕِ ﺩﯾﻦ ﺗﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻭﺟﮭﻞ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻏﯿﺎﺭ ﺳﺒﮭﯽ ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﻣﺴﺦ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ
ﻣﻨﮑﺮﺍﺕ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻣﭩﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﻟﮕﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﭘﮭﯿﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ..
ﮔﻤﺮﺍﮨﯽ ﭘﮭﯿﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ' ﺍﻟﺤﺎﺩ ﺁﺭﮨﺎ ﮨﮯ ' ﺷﺮﮎ ﺑﺪﻋﺖ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﭼﻠﯽ
ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ' ﺣﺮﺍﻡ ﺣﻼﻝ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﯿﺎﺯ ﺍﭨﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻢ ﻟﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻥ ﻓﺮﻋﯽ ﻓﺮﻭﻋﯽ ﺑﺤﺜﻮﮞ ﻣﯿﮟ .. !
ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻏﻤﮕﯿﻦ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻋﻤﺮ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮ
ﺩﯼ "!!_________
ﺍﻗﺘﺒﺎﺱ : " ﻭﺣﺪﺕِ ﺍﻣّ " ﺍﺯ ﻣﻔﺘﯽ ﻣﺤﻤﺪ ﺷﻔﯿﻊ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ..
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ﮐﮧ ﮬﻤﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮﯾﮟ ﺿﺎﺋﻊ ﮬﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭻ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮬﻢ ﺍﭘﻨﯽ
ﺍﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﮏ ﭘﺮﺳﺘﯽ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﯾﻦ ﮐﻮ ﺗﺮﺟﯿﺢ ﺩﮮ ﺳﮑﯿﮟ .. ﺁﻣﯿﻦ



مزاحیہ لیکن سبق آموز بات چیت

غیر ﻣﻘﻠﺪ(باپ) اپنے بیٹے کو ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﻫﻮئے کھتا ھے کہ بیٹا :
ﮐﺒﻬﯽ ﺑﻬﯽ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻧﻪ ﮐﺮﻧﺎ...
ﺑﯿﭩﺎ :
ﺍﺑﺎﺟﯽ ﯾﮧ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮐﯿﺎ ﻫﻮﺗﯽ ﻫﮯ...؟
ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ(باپ) :
ﺑﯿﭩﺎ ﻫﻤﺎﺭﮮ ﻣﻮﻟﻮﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﻫﻤﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ھے کہ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕﺑﻐﯿﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺍﻭﺭ ﺩﻟﯿﻞ ﮐﺎ ﻣﻄﺎﻟﺒﻪ ﮐﺌﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﯾﮧ
ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻫﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﻮ ﯾﮧ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﮔﻤﺮﺍﻫﯽ ﻫﮯ ﺍﺳﻠﺌﮯ ﻣﻘﻠﺪ
ﮔﻤﺮﺍﻩ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ...
ﺑﯿﭩﺎ: ﺍﺑﻮ ﺟﯽ
ﺗﻮ ﭘﻬﺮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻮﻟﻮﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﻫﯽ ﻫﻮﮔﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ
ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﮐﺪﻫﺮ ﻟﮑﻬﺎ ﻫﮯ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺑﻐﯿﺮﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻫﮯ ؟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﻨﺪﻩ ﮔﻤﺮﺍﻩ ﻫﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ
ﻣﺠﻬﮯ ﺑﻬﯽ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﮟ؟ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﻬﯽ ﻋﻠﻢ ﻫﻮ ﺟﺎﺋﮯ
(ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ ﺟﻮﺍﺏ ﺣﯿﺮﺍﻥ پریشان)
ﺍﺑﺎﺟﯽ ﺗﻮ ﭘﻬﺮ ﺁﭖ ﺑﻬﯽ ﺗﻮ ﻣﻘﻠﺪ ﻫﻮﮮ ﻧﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻮﻟﻮﯾﻮﮞ ﮐﮯ (ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪباپ ﺧﺎﻣﻮﺵ)
ﺑﯿﭩﺎ: ﺍﭼﻬﺎ ﺍﺑﻮ ﺟﯽ ﻫﻢ ﺍﮔﺮ ﺗﻘﻠﯿﺪ ﻧﻪ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﭘﻬﺮ ﮐﯿﺎ
ﮐﺮﯾﮟ ؟
ﻏﯿﺮ مقلد :
ﺑﯿﭩﺎ تم ﺧﻮﺩ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻭ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﮐﺎﻥ نہ ﺩﻫﺮﻭ
ﯾﮧ ﺣﻨﻔﯽ ﻟﻮﮒ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻧﻬﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﺳﻮﺟﻪ ﺳﮯ ﮔﻤﺮﺍﻩ ﻫﯿﮟ
ﺑﯿﭩﺎ : ﺍﺑﻮ ﺟﯽ
ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﻋﺮﺑﯽ ﻫﯽ ﻧﻬﯿﮟ ﭘﮍﻫﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﺎ ﻭﻗﺖ ﻫﯽ ﻧﻬﯿﮟﮐﮧ ﻭﻗﺖ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﻋﺮﺑﯽ ﭘﮍھﯿﮟ، ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞﻧﮑﺎﻟﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﻩ ﺗﻮ بے ﭼﺎﺭﮮ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ؟
ﺍﺑﺎﺟﯽ ﺁﭖ ﺑﻬﯽ ﺗﻮ ﻋﺮﺑﯽ ﻧﻬﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﮯ !
نہ
ﻫﯽ ﮐﺒﻬﯽ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻫﻤﯿﮟ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﻫﮯ ﺍﻭﺭ
ﻣﺠﻬﮯ ﯾﺎﺩ ﻫﮯ ﺟﺐ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﮐﻮ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﻦ ﻃﻼﻕ ﺍﮐﭩﻬﯽ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ ﺗﻬﯿﮟ ﺗﻮ ﻫﻤﺎﺭﮮ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺍﻫﻞ ﻣﺤﻠﮧ ﻧﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮐﻬﻨﮯ ﭘﺮ
ﺍﻋﺘﺮﺍﺽ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﺒﻬﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺴﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺳﮯ ﮐﺒﻬﯽ
ﮐﺴﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺳﮯ ﺭﺍﺑﻄﻪ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﭘﻮﭼﻬﺘﮯ ﺗﻬﮯ ﺧﻮﺩ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻧﻬﯿﮟ ﮐﯽ ﺗﻬﯽ؟
ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﺁﭖ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﺎ ﺗﺮﺟﻤﻪ ﺍﻭﺭ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﺎ ﺩﺭﺱ ﺳﻨﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯﺍﻫل حدیثوں ﮐﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﮯ ﻫﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﻫﯽ ﺗﺮﺟﻤﻪ ﺍﻭﺭﺣﺪﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﻬﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ؟
ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﻫﻤﺎﺭﮮ ﻣﺤﻠﮯ ﮐﮯ ﺍﻫل حدﯾﺚ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ جمعہ ﮐﺎ ﺩﺭﺱ ﺑﮍﮮ ﺍﺳﭙﯿﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺑﻬﯽ ﺑﺘﺎﺗﮯ ﻫﯿﮟ
ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﺒﻬﯽ ﺑﻬﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮑﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﻬﯿﮟ ﻫﺮ
ﺑﻨﺪﻩ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺧﻮﺩ ﮐﺮﮮ؟
ﺍﺑﺎﺟﺎﻥ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺑﻬﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﯾﻨﯽ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻫﻮﺗﺎ
ﻫﮯ ﻭﻩ ﺁﭖ ﺳﮯ ﮐﻬﺘﯽ ﻫﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﻬﺘﮯ ﻫﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﺘﻼ ﺩﯾﺘﮯ ﻫﯿﮟ،
ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺧﻮﺩ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﻬﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ؟
ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﺒﻬﯽ ﺑﻬﯽ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺩﻟﯿﻞ ﻧﻬﯿﮟ ﭘﻮﭼﻬﯽ؟
ﺍﺑﺎﺟﺎﻥ ﮐﺌﯽ ﻣﺮﺗﺒﻪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﻬﺎ ﻫﮯ ﮐﮧ ﻫﻤﺎﺭﮮ ﻣﻮﻟﻮﯼ
ﺻﺎﺣﺐ ﻓﺘﺎﻭﯼ ﻧﺬﯾﺮﯾﮧ ﻗﺘﺎﻭﯼ ﻋﻠﻤﺎﺋﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﺑﺘﺎﺗﮯﻫﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺗﻮ ﻭﻩ ﺑﻬﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻧﻬﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ؟
ﺍﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﺁﺧﺮ ﯾﮧ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﻫﻤﺎﺭﮮ کتب خانہ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﭼﻬﭙﻮﺍﺗﮯﻫﯿﮟ ؟
ﺟﺐﮨﺮ ﺑﻨﺪﮮ کو ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﺳﮯ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﻫﯽ ﮐﺮﻧﯽ ﻫﮯ؟
ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ: ﺟﻮﺍﺏ ﻫﻮ ﮐﺮﺑﻮﮐﻬﻼﮨﭧ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﻫﮯ
ﺩﻓﻌﮧ ﻫﻮ ﺟﺎﻭ ﻟﮕﺘﺎ ﻫﮯ ﺗﺠﻬﮯ ﺑﻬﯽ ﺣﻨﻔﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﻫﻮﮔﯿﺎ
ﻫﮯ...........!!!!!😅