Pages

‎تبلیغی جماعت،ایک مثبت جائزہ اور اعتراضات


تبلیغی جماعت،ایک مثبت جائزہ
عظیم الرحمن عثمانی
         اس تحریر کو پڑھنے سے پہلے یہ بات اچھے سے جان لیجیئے کہ میرا اپنا تعلق تبلیغی جماعت سے نہیں ہے. یہ بھی سچ ہے کہ میں جہاں ان کی کچھ اچھائیوں کا معترف ہوں وہاں کئی حوالوں سے ان سے اختلاف رکھتا ہوں. اس جماعت کے خلاف لکھنے یا بولنے والے آج آپ کو بکثرت دستیاب ہیں، مگر شاذ ہی کوئی لکھاری آپ کو ایسا ملے گا جو اس جماعت پر لگے اعتراضات کا جواب دے یا کم سے کم اس جماعت کے محاسن ہی بیان کردے.

تبلیغی جماعت آج بدقسمتی سے وہ مظلوم ملامتی طبقہ بن چکی ہے جوہر عام و خاص مذھبی گروہ کی تنقید و عتاب کا نشانہ ہے. کمال یہ ہے کہ تبلیغی جماعت کسی بھی تنقید اور اشتعال کے جواب میں اکثر خاموشی اختیار رکھتی ہے. ان مٹی کے مادھوؤں کو کوئی کتنا ہی کوس لے، گالیاں دے لے ، مزاق اڑا لے .. یہ جواب میں آپ کو مسکراتے نظر آئیں گے. اس ضمن میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جتنی مقبولیت عوام الناس میں اس تبلیغی تحریک نےحاصل کی ہے ، اس کا عشر عشیر بھی دیگر مقبول  جماعتیں نہیں حاصل کر پائیں. یہ ایک بنیادی وجہ ہے کہ جب دوسری مذہبی جماعتیں اپنی پیش کردہ سوچ کو عوام میں وہ قبولیت نہیں دلوا پاتیں جو تبلیغی جماعت کے پاس ہے تو وہ اس جماعت سے لاشعوری طور پر خائف ہونے لگتی ہیں. ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وہ اپنے فلسفہ اور دعوت کو مضبوط کرتے، تبلیغی جماعت کی کامیابی کے عوامل کا دیانتدارانہ تجزیہ کرتے اور پھر اپنی سوچ کے ابلاغ کو موثر بناتے. مگرافسوس کے اسکے برعکس وہ کرتے یہ ہیں کہ مائکروسکوپ لے کر تبلیغی جماعت میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں. یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ میرا اشارہ علمی و مثبت تنقید کی جانب نہیں ہے بلکہ اس رویہ کی طرف ہے جہاں طعن و تشنیع کو ہتھیار بنالیا جاتا ہے.طریقہ واردات اکثر یہ ہوا کرتا ہو کہ مختلف مذہبی گروہ پہلے پورے اخلاص سے یہ تقاضہ کرتے ہیں کہ تبلیغی جماعت اپنےمنشور اور طریق کو یا تو ترک کر دے یا پھر اس میں ترمیم کرکے دین کا وہ نظریہ اپنا لیں جسے یہ پراخلاص ناقد گروہ دین کی ترجیح یا درست راستہ سمجھتا ہے. اب ظاہر ہے کہ ایسا ہونا قریب قریب ناممکن ہے. اپنے منشور و طریق کو ترک کرنے یا ترمیم کرنے کا مطالبہ اگر ان دیگر جماعتوں سے بھی کیا جائے تو یہ کبھی بھی اسے اپنے لئے تسلیم نہ کریں. اب جب یہاں دال نہیں گلتی اور وہ دیکھتے ہیں کہ تبلیغی جماعت انکی پیش کردہ سوچ کو نہیں اپنا رہی یا اپنا منہج نہیں تبدیل کررہی تو پھر ناراضگی اور الزامات کی بوچھاڑ ہونے لگتی ہے. کوئی گروہ پکارتا ہے کہ تبلیغی جماعت میں اتنےسارے لوگ ہیں تو یہ اسرائیل سے جہاد کیوں نہیں کرتے ؟ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ انکی اتنی کثیر تعداد ہے پھر یہ خلافت کی واپسی کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟ تیسرا تحقیقی مزاج گروہ بولتا ہے کہ یہ سہہ 
روزہ وغیرہ چھوڑ کر کوئی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کیوں نہیں کھولتے ؟ .

. غرض جتنے منہ اتنے مشورے، یہاں وہ مسالک تو زیر بحث ہی نہیں ہیں جو تعصب کی پٹی باندھ کر صرف مسلکی عداوت کی بناء پر اس جماعت کے دشمن بنے رہتے ہیں. تبلیغی جماعت کا حال یہ ہے کہ یہ ہر قسم کی فرقہ پرستی سے خود کو دور رکھتی ہے ،لہٰذا یہ دیوبند سے تعلق کے باوجود کبھی تو علامہ طاہر القادری صاحب کے ساتھ بیٹھی ہوتی ہے تو کبھی اہل تشیع کی بارگاہ میں نماز اداکرتی ہے. کبھی امام کعبہ کے ساتھ نظر آتی ہے تو کبھی نعمان علی خان جیسے نوجوان اہل علم کو گلے لگاتی ہے. اگر یہ بیچارے صرف تکفیری گروہوں کا نشانہ ہوتے تو شائد شکایت نہ ہوتی مگر حال یہ ہے کہ جدید و قدیم تمام دانشور اپنے منہج کے مطابق انہیں طرح طرح کے مشورے دیتے نظر آتے ہیں. لہٰذا ڈاکٹر اسرار احمد سے لے کر جاوید احمد غامدی صاحب تک اور پروفیسر رفیق اختر سے لے کر ڈاکٹر ذاکر نائیک تک الگ الگ زاویوں سے انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں. یہ دھیان رہے کہ جن بزرگوں کا نام درج کیا ہے ، یہ سب اس جماعت کے کسی نہ کسی درجہ میں معترف بھی ہیں اور اسکی بے پناہ مقبولیت کے قائل بھی.یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ جو شخص، جماعت یا ادارہ جتنا مقبول ہوتا ہے ، اس کے ناقد اور دشمن بھی اتنے ہی کثیر ہوتے ہیں. دنیا بھر کے بینکوں میں پچھلے برس ‘ایچ ایس بی سی’ بینک کو مقبول ترین بینک قرار دیا گیا، مزیدار بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ فراڈ کی کوشش بھی اسی بینک سے منسلک لوگوں کے ساتھ کی گئی. کمپیوٹر کی دنیا میں ‘ونڈوز آپریٹنگ سسٹم’ کو سب سے مقبول مانا جاتا ہے مگر لطف یہ ہے کہ سب سے زیادہ ہیکنگ اور وائرس کے حملے بھی اسی سافٹ ویئر کے خلاف ہوتے ہیں. قصہ مختصر یہ کہ تنقید اور شکایات اکثر مقبولیت کا ضمیمہ بن کر آتی ہیں.

تبلیغی جماعت پر سب سے بڑا اعتراض شائد یہ کیا جاتا ہے کہ ان کے بیانات میں ضعیف ترین احادیث بھی بیان کردی جاتی ہیں. خود ان کی مقبول ترین کتاب ‘فضائل اعمال’ میں ایسی بہت سی احادیث درج ہیں جو روایت و درایت دونوں پر صحت کے اعتبار سے پورا نہیں اترتیں. جیسا کہ میں نے گفتگو کے آغاز میں ہی درج کردیا تھا کہ میں خود تبلیغی جماعت کی کئی باتوں سے اختلاف رکھتا ہوں اور شائد یہ بتانا مناسب ہوگا کہ ان ضعیف احادیث کا بیان کرنا میرے ان سے اختلافات میں سرفہرست ہے. مگر سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ یہ احادیث صحت کے اعتبار سے ٹھیک نہیں ؟ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو اس جماعت کے بڑوں سے جاکر ملے ہوں اور اپنے اشکالات کے جواب طالب علمانہ انداز میں جاننے چاہے ہوں ؟ اگر آپ تحقیق کریں گےتو آپ کو معلوم ہوگا کہ تبلیغی جماعت اہل سنت میں موجود علماء کی ایک مقبول رائے کے تحت ایسا کرتے ہیں. اس رائے کے مطابق جب دین کے ‘اصول’ بیان کئے جائیں گے تو لازمی ہے کہ ان کی بنیاد قران یا صحیح حدیث کی ‘قطعی’ بنیادوں پر استوار ہو. مگر جب ایک بار کوئی اصول قران و حدیث سے صریح طور پر ثابت ہوگیا تو اس کے ‘فضائل’ میں ضعیف احادیث یا دیگر سبق آموز قصے بھی بیان کیے جا سکتے ہیں. اب مثال کے طور پر جنت کا ہونا اور اس میں ہر طرح کی خواہش کا پورا ہونا دین کے واضح نصوص سے ثابت ہے. اس کے حق میں قرانی آیات اور صحیح ترین احادیث موجود ہیں. اب جب جنت میں ہر نعمت ملنا ثابت ہوگیا تو اب جنت کے فضائل میں جو جو بھی احادیث یا واقعات حاصل ہوں گے ، تبلیغی جماعت اور اسی طرح کئی اور جماعتوں میں بے تکلف بیان کردیئے جائیں گے. وجہ وہی ہے کہ اب بات ‘فضائل’ کی ہے ‘اصول یا ایمانیات’ کی نہیں. اسی طرح نماز اور روزہ کا مقبول ترین عبادت ہونا قران و سنت سے اصول میں ثابت ہے. اب شوق پیدا کرنے کی غرض سے جو جو احادیث بھی ان عبادات کے ‘فضائل’ کو بیان کر رہی ہیں ، وہ بیان کر دی جائیں گی.اسی وجہ سے جب میرے جیسے سامع  تبلیغی جماعت کی اس اپروچ کو سمجھے بغیر ‘حور’ کے فضائل سنتے ہیں تو ناراض ہو جاتے ہیں. میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ تبلیغی جماعت کی اس رائے سے اختلاف نہ کریں. میں بس اتنا کہہ رہاہوں کہ پہلی بات یہ جان لیں کہ یہ رائے تبلیغی جماعت کی خودساختہ نہیں ہے بلکہ اکابر میں رائج آراء میں سے ایک ہے. دوسری بات یہ سمجھ لیں کہ یہ ضعیف واقعات میری یا آپ کی طبیعت پر چاہے کتنے ہی گراں کیوں نہ گزریں مگر کم سےکم اتنی طمانیت ضرور دیتے ہیں کہ ان کے ذریعے دین کے ‘اصول’ متعین نہیں کئے جارہے بلکہ ان کا دائرہ ‘فضائل’ تک محدود ہے.

تبلیغی جماعت پر دوسرا مشہور اعتراض مولانا طارق جمیل کے حوالے سے یہ ہے کہ یہ صرف نامور ملکی شخصیتوں کو دعوت دیتے ہیں. یہ اعتراض بہت ہی کھوکھلا اور بےبنیاد ہے. اس جماعت سے کمتر ترین واقفیت رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ مولانا طارق جمیل سمیت پوری تبلیغی جماعت ہر سطح پرتبلیغ کا اہتمام کرتی ہے. مچھیروں سے لے کر طالبعلموں تک، فوج سے لے کر کرکٹرز تک اور گلوکاروں سے لے کر طوائفوں تک ان کا پیغام ایک جیسی تندہی سے پہنچایا جاتاہے.
ایک تیسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کو چھوڑ کر غیرمسلموں کو کیوں دین کی دعوت نہیں دیتے ؟ .. اس کا جواب مجھے تب ملا جب میں خود انگلینڈ میں غیرمسلوں کو دعوت دینے لگا. مجھے تبلیغ کے بھائیوں نے باقاعدہ کتب مہیا کی. اسی طرح میری ملاقات بحسن اتفاق ایک بزرگ شخصیت ‘شیخ محمد جہانی’ سے ہوئی جو تبلیغی جماعت سے وابستہ ہیں مگر ان کے ہاتھ پر روز تین سے چار لوگ اسلام قبول کرتے ہیں. لہٰذا یہ سوچنا کہ تبلیغی جماعت سے منسلک لوگ غیرمسلم افراد کی جانب بلکل توجہ نہیں کرتے، سراسر بےبنیاد ہے. یہ ضرور ہے کہ ان کی ترجیح پہلے اپنے مسلم بھائیوں کی اصلاح ہے .

اسی طرح ایک چوتھا اعتراض یہ ہے کہ یہ سہہ روزہ یا چلہ وغیرہ بدعات ہیں. لیکن ان سے بات کیجیئے تو معلوم ہوگا کہ وہ اسے دین کا حصہ نہیں کہتے بلکہ اسے مباحات میں شمار کرتے ہیں. یہ ایک ترتیب ہے جو تجربہ اور اشاروں کی بنیاد پر بنائی گئی ہے. اس کے بارے میں تبلیغی جماعت کا یہ موقف ہرگز نہیں رہا ہے کہ اگر کوئی سہہ روزہ پر نہیں گیا تو وہ گنہگار شمار ہوگا. اس بات کی بھی بار بار تلقین کی جاتی ہے کہ اس تبلیغی ترتیب سے آپ کا خاندان متاثر نہ ہو.

ایک اور معروف اعتراض یہ ہے کہ تبلیغی جماعت تحقیق کیوں نہیں کرواتی. ایسا مطالبہ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس جماعت کے مقاصد کیا ہیں ؟ معلوم ہوگا کہ اس جماعت کاقیام اسلئے نہیں کیا گیا ہے کہ بڑے بڑے محققین پیدا کئے جاسکیں بلکہ اس کے وجود کا واحد مقصد لوگوں کو بنیادی باتوں کی جانب بلانا ہے. بیشمار لوگ پاکستان ، بنگلہ دیش، ہندوستان وغیرہ میں موجود ہیں جو کلمہ تک نہیں پڑھ سکتے.

 اس جماعت کا مقصد لوگوں کو بنیادی باتوں کی طرف بلانا ہے جیسے ارکان اسلام یا اچھے اخلاق اور اس میں یہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں . اعتراضات کی ایک طویل فہرست ہے جو مرتب کی جاسکتی ہے مگر طوالت کی بناءپر میں اتنے پر ہی اکتفاء کرتا ہوں.

اختلاف کیجیئے ، ضرور کیجیئے مگر جہاں اس جماعت پر تنقید کا حوصلہ رکھتے ہیں، وہاں یہ اخلاقی جرات بھی پیدا کریں کہ ساتھ ساتھ ان کے محاسن کا اعتراف بھی کرسکیں. الله پاک ہم سب میں محبت پیدا کرے اور ہم سب کو اپنی اصلاح کی توفیق دے، آمین.